میاں بیوی کے درمیان خوش گوار تعلقات کیسے؟- ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

(1) نکاح کا مقصد نسلِ انسانی کا تسلسل ، جنسی تسکین اور باہم محبّت و مودّت کے ساتھ اور مل جل کر تمدّن کے ارتقاء کی کوشش ہے۔ زوجین کے درمیان خوش گوار تعلقات ہوں تبھی یہ مقاصد بہتر طور پر حاصل کیے جاسکتے ہیں _

(2) اسلام نے خاندان کا جو دائرۂ کار متعین کیا ہے اور جو ضوابط طے کیے ہیں ان کی پاس داری ضروری ہے _ مرد کو خاندان کا ‘قوّام’ ( نگراں/ Boss) بنایا گیا ہے اور عورت پر اس کی اطاعت لازم کی گئی ہے _ ان ضوابط کی پامالی سے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوتی ہے۔

(3) ضروری ہے کہ شوہر تمام کاموں میں بیوی کو شریکِ مشورہ رکھے۔ وہ گھر کا نظم داروغہ کی طرح نہ چلائے ، جہاں دوسرے افرادِ خانہ اس کے اشاروں پر چلیں اور وہ کسی کی بات نہ سنے ، لیکن باہم مشاورت کے بعد جب شوہر کی طرف سے کوئی بات طے کردی جائے تو بیوی بچوں کے لیے اس کی پابندی لازمی ہے۔ قرآن مجید میں ہے : ” نیک عورتیں شوہروں کی اطاعت گزار ہوتی ہیں۔” (النساء : 34)

(4) اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کے حقوق متعین کردیے ہیں اور فرائض بھی بتا دیے ہیں _ عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَلَهُنَّ مِثۡلُ الَّذِىۡ عَلَيۡهِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ‌ (البقرۃ : 228)
” عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں ، جیسے مَردوں کے حقوق ان پر ہیں ۔”
گویا عورتوں کے حقوق مردوں کے فرائض ہیں اور مردوں کے حقوق عورتوں کے فرائض ہیں _ ہر ایک اگر اپنے فرائض ادا کرنے پر توجہ دے تو دوسرے کے حقوق خود بہ خود ادا ہوں گے اور انہیں طلب کرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔

(5) ازدواجی تعلق کی بنیاد محبت اور ایثار پر استوار ہوتی ہے _ اگر محبت نہ ہو تو خود غرضی پیدا ہوتی ہے اور آدمی ہر معاملے میں اپنا مفاد دیکھتا ہے _ محبت ہو تو اپنا سب کچھ دوسرے پر نچھاور کردیتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے : ” دو محبت کرنے والوں کے درمیان نکاح سے زیادہ مضبوط رشتہ نہیں ہوتا۔ ( ابن ماجہ : 1847)

(6) زوجین کے درمیان ایک دوسرے پر اعتماد انتہائی ضروری ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر شک و شبہ کرنا ازدواجی زندگی کے لیے سمِّ قاتل ہے ۔ دل میں کوئی شک پیدا ہو تو فوراً اپنے جوڑے سے اس کا اظہار کرکے معاملہ صاف کر لینا چاہیے۔ اسے دل میں چھپائے رہنے سے وہ بڑھتا رہتا ہے ،یہاں تک کہ بسا اوقات نوبت علیٰحدگی تک جا پہنچتی ہے۔

(7) مردوں کو خاص طور پر تاکید کی گئی ہے کہ بیویوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں _ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” ان (عورتوں) کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو ۔( النساء : 19) اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے :” میں تمہیں عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تلقین کرتا ہوں۔ ” (بخاری :3331 ، مسلم : 1468) آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر جہاں اپنے اصحاب کو دین کی بنیادی باتوں کی تعلیم دی وہیں عورتوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے پر بھی زور دیا۔ ” ( ابن ماجہ :1513)

(8) میاں بیوی دونوں کو یہ حقیقت ہمیشہ اپنے سامنے رکھنی چاہیے کہ اس دنیا میں کوئی بھی Perfect نہیں ہے _ ہر انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہے _ شوہر یا بیوی جیسی بھی ہو اسے اسی طرح قبول کرنا چاہیے ، اسے اپنے تصورات اور خوابوں میں بنائی گئی تصویر پر نہیں ناپنا چاہیے _ اس سلسلے میں خاص طور پر مردوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ اگر بیویوں میں کچھ خامیاں دیکھیں تو انہیں اپنی نگاہوں سے گرا نہ دیں ، بلکہ ان کی خوبیوں کو اپنے پیشِ نظر رکھیں _ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ” اگر وہ(بیویاں) تمہیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اُسی میں بہت کچھ بَھلائی رکھ دی ہو ۔ ” ( النساء : 19)

(8) زبان کی حفاظت ازدواجی زندگی میں خواش گواری کی کلید ہے۔ شوہر ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کرتا ہو ، یا غصہ اس کی ناک پر رہتا ہو ، یا وہ اپنی مردانگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے بیوی پر ہاتھ اٹھا دیتا ہو ، یا بیوی زبان کی تیز ہو ، وہ پلٹ کر جواب دے دیتی ہو تو ازدواجی زندگی میں تلخی گھل جاتی ہے۔ بیوی جہیز نہ لائی ہو تو اسے طعنے دیے جائیں ، وہ قبول صورت ہو تو اس پر بد صورتی کی پھبتی کسی جائے تو دل ٹوٹ جاتا ہے اور اس میں محبت کی جگہ نفرت پیدا ہوجاتی ہے ، اس لیے اگر ازدواجی زندگی کو خواش گوار رکھنا ہو تو زبان کو قابو میں رکھنا ہوگا۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ہے : “جو شخص مجھے ضمانت دے اس چیز کی جو اس کے دونوں جبڑوں کے درمیان ہے (یعنی زبان) اور اس چیز کی جو اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان ہے (یعنی شرم گاہ) ، میں اسے جنّت کی ضمانت دیتا ہوں۔ ( بخاری : 6474)

(9) اسلام میں صلہ رحمی یعنی رشتے داروں کے ساتھ اچھے سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ شوہر کے ماں باپ بھائی بہن بیوی کے رشتے دار ہیں اور بیوی کے ماں باپ بھائی بہن شوہر کے رشتے دار ہیں۔ شوہر کو چاہیے کہ بیوی کے سامنے اس کے ماں باپ کی کوئی برائی نہ کرے اور بیوی کو چاہیے کہ شوہر کے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ ساس سسر کو بھی چاہیے کہ بہو کے کاموں کو خردبین لگا کر نہ دیکھیں ، بلکہ اس کے اچھے کاموں پر اس کی تعریف کریں اور اس کی کوتاہیوں کو نظر انداز کریں۔

(10) بیوی شوہر کی نظرِ التفات کی بھوکی رہتی ہے _ وہ اس کا مرکزِ توجہ بنے رہنا چاہتی ہے _ اس لیے شوہر کو چاہیے کہ بیوی کے ساتھ اچھا وقت گزارے _ اس کے ساتھ خوش طبعی سے پیش آئے اور ہلکا ہنسی مذاق کرے ، اس کے ساتھ کبھی کبھی سیر و تفریح پر جائے _ ایک حدیث میں ہے کہ ام المؤمنين حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اللہ کے رسول ﷺ کو گیارہ عورتوں کا قصہ سنایا _ آپ صبر و سکون سے سنتے رہے _ ان میں سے ایک عورت کا نام ام زرع تھا ، جس کا شوہر اس سے بہت پیار کرتا تھا _ پورا قصہ سننے کے بعد آپ نے فرمایا : ” میں تمھارے لیے اسی طرح ہوں جیسے ام زرع کے لیے ابو زرع تھا۔”( بخاری : 5189 ، مسلم : 2448) آپ ام المؤمنين کے ساتھ صحرا میں جاتے اور دوڑ کا مقابلہ کرتے۔ کبھی ام المؤمنين آگے نکل جاتیں کبھی آپ، ام المؤمنین کی دل جوئی کے لیے کبھی آپ انہیں حبشیوں کے کرتب دکھاتے۔