کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال قائم کیا قوم نے پرجوش تعاون کیا لوگوں نے عمران خان کے سماجی کاموں میں بھرپور تعاون کیا عوام کے پرجوش تعاون سے متاثر ہو کر عمران خان نے خود اور کچھ دوستوں نے بھی سیاست میں آنے اور سیاسی جماعت بنانے کا مشورہ دیا۔ دوستوں کے تعاون سے عمران خان نے 1996 میں پی ٹی آئی بنائی۔ اور سیاست میں بھرپور سرگرم عمل ھو گے۔ بے پناہ خوبیوں اور صلاحیتوں کے باوجود عمران خان جمہوری مزاج نہیں رکھتے آمرانہ سوچ کے مالک ھیں ان سے اب تک جتنے ساتھی ناراض ہوکر علیحدہ ھوئے اسکی بنیادی وجہ عمران خان کے آمرانہ فیصلے ھیں پاکستانی قوم بھی جمہوریت پسند نہیں شخصیت پرست ھیں۔ یہاں جمہوری روایات و اقدار کی پاسداری نہیں۔ عمران خان کی جماعت نے 2013 میں صوبہ کے پی کے میں الیکشن جیت کر حکومت بنائی تھی اور پولیس ومحکمہ مال میں کامیاب شاندار اصلاحات نافذ کی تھیں پھر 1918 کے الیکشن میں قومی اسمبلی کی 342 سے 149 نشستیئں لیکر اتحادیوں کو ساتھ ملا کر وفاق، پنجاب اور کے پی کے میں حکومتیں قائم کیں تھیں۔ بعد کے الیکشن میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی الیکشن جیت کر یہاں بھی اپنی حکومت بنالی۔ جرنل مشرف جب صدر تھے تو ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مشرف عمران خان کو گورنر پنجاب بنانا چاہتے تھے عمران خان سے کہا آؤ میرے ساتھ ملکر حکومت بناتے ھیں۔ عمران نے ملاقات کے دوران مشرف سے کہا ملک سے کرپٹ لوگوں کا خاتمہ ضروری ھے مشرف نے پوچھا کیسے ختم کریں تو عمران خان نے کہا تمام بددیانت لوگوں کو سر عام پھانسیاں دی جائیں مشرف نے پوچھا تم نے بددیانت لوگوں کی کوئی فہرست بنائی ھے تو عمران خان نے کہا 5400 کی فہرست ھے ان سبکو لٹکایا جائے سخت احتساب سری سماعت کے بعد فیصلے ھوں یہ سنکر مشرف خاموش ھو گیا اور پھر نہ دونوں کی ملاقات ھوئی اور نہ ہی عمران گورنر بنے۔اس میں شبہ نہیں کہ سابقہ حکومتوں نے ملک کو بیدردی سے لوٹا اسی ردعمل میں 2018 کے الیکشن میں قوم نے عمران خان کو ووٹ دئے۔ دوران الیکشن مہم عمران خان نے قوم سے وعدہ کیا کہ وہ اقتدار میں آ کر ایک سو دنوں کے اندر کرپشن ختم کریں گے ۔ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنائیں گے۔ملک سے لوٹی گئی دولت واپس لائیں گے۔ ایک کروڑ بیروزگاروں کو نوکریاں دیں گے ۔ 50 لاکھ گھر بنا کر دیں گے۔ مہنگائی اور بیروز گاری ختم کریں گے ۔بجلی اور گیس سستی کریں گے اور بڑی بڑی سرکاری عمارتوں میں تعلیمی ادارے قائم کریں گے ۔ بدقسمتی سے ساڑھے تین سال کے اقتدار میں ان میں سے ایک وعدہ بھی پورا نہ کرسکے الٹا مہنگائی بیروزگاری بددیانتی روپیے کی قدر میں کمی اور بیرونی قرضوں میں بے تحاشہ اضافہ ھو گیا آئی ایم ایف سے سخت ترین شرائط پر قرض لیا ہر چیز کے ریٹس دوگنے ھو گے۔عملی طور پر عمران خان کی حکومت بری طرح سے ناکام ھوگی عمران خان نے الیکشن2018 عوام کے ووٹوں سرمایا داروں کے نوٹوں اور اپنے جھوٹے وعدوں اور خلائی مخلوق کے تعاون سے جیتا تھا۔مگر قوم کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکے۔ عمران خان نے اپنی بے پناہ صلاحیتیں سارہ عرصہ سیاسی مخالفین کو چور ثابت کرنے میں ضائع کیا۔ نہ تو چوریاں ثابت ھوئیں اور نہ ہی چوروں سے لوٹی گی دولت واپس لاسکے۔ اپنی غیر شائستہ زبان سے نیا گندہ غیر اخلاقی سیاسی کلچر ڈیولپ کیا۔امرانہ فیصلے کئے، گندی زبان ناتجربہ کار ٹیم،زد ہٹ دھرمی، میں نہ مانوں والی پالیسی انھیں لے ڈوبی۔ ملکی مفاد میں بھی اپوزیشن سے نہ ھاتھ ملایا نہ مزاکرات کا راستہ اختیار کیا ۔ کرپشن کا سلسلہ جاری رھا بہت ہی خطرناک شرائط پر آ ئی ایم ایف سے شرائط پر بے تحاشہ قرض لیا گیا۔ ناقص فیصلوں اور پالیسی کی وجہ سے مہنگائی اور بیروز گاری میں ریکارڈ اضافہ ھوا۔ عدم اعتماد سے حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان نے غلط وقت پر بہت غلط فیصلے کئے پنجاب اور کے پی کے حکومتیں توڑنا اور پھر قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفےدینا۔ استعفوں کی منظوری کے خلاف عدالت جانا بہت ہی غیر سیاسی اور غلط فیصلے تھے۔ عدم اعتماد کے بعد جلسے جلوسوں اور احتجاجی ریلیوں کے زریعے حکومت پر دباؤ برقرار رکھنا بہترین حکمت عملی تھی مگر عمران خان نے آمرانہ غیر سیاسی فیصلے کر کے اپنی اور جماعت کی پوزیشن بہت خراب کردی۔انے والے الیکشن میں یہ فیصلے پی ٹی آئی کے لئے زہر قاتل ثابت ھوںگے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی اختلافات دشمنیوں میں بدل چکے ھیں عمران خان اور کچھ دیگر سیاستدانوں کی زندگیاں خطرے میں ھیں جس کا سرعام اظہار ھورھا ھے۔مستقبل قریب میں بزریعہ احتساب اور عدالت عمران خان کو ناہل قرار دیے جانے کے قوی امکانات ھیں۔ پی ڈی ایم والے اپنی سیاسی بقاء اسی میں سمجھتے ھیں۔ توشہ خانہ کیس۔غیر ملکی فنڈنگ اور دیگر بہت سے کیس اس وقت مجاز عدالتوں میں زیر کار ھیں کسی نہ کسی کیس میں عمران خان کے ناہلی کے روشن امکانات ھیں۔ ناجائز بیٹی والا کیس سب سے زیادہ خطرناک ھے اس حوالے سے مظہر قیوم کا ایک آرٹیکل جو نوائے وقت میں 15جولائی 2018 پلش ھوا تھا اس میں اھم حقائق ھیں جن کے مطابق 1997 لاس اینجلس امریکی عدالت نے عمران خان کے خلاف فیصلہ دیتے ھوئے “ٹیرن” کو عمران خان کی ناجائز بیٹی قرار دیا تھا ٹیرن سیتا وائیٹ اور عمران کی بیٹی ھے جبکہ عمران خان نے سیتا وائیٹ سے کبھی شادی نہیں کی۔ عدالت نے عمران خان کے ڈی این اے کا حکم جاری کیا تھا مگر عمران خان نے انکار کردیا تھا عمران پھر عدالت حاضر ہی نہیں ھوئے اور یکطرفہ ان کے خلاف فیصلہ ھوا۔ شروع میں تو حاضر ھوتے تھے ڈی این اے کے فیصلے کے بعد حاضر نہیں ھوئے۔اس حوالے سے ان سے حامد میر کا لیا گیا انٹرویو بھی اھم اور مشہور ھے جس میں عمران خان فرماتے ھیں کے میں بھی انسان ھوں۔ اور انسان سے غلطیاں سرزد ھوتی ھیں یہ بہت اھم کیس ھے جو آج عمران خان کے خلاف چل رہا ھے عمران خان نے اس لڑکی کو ماضی میں اپنی بیٹی ظاہر نہیں کیا۔ اس کیس میں نا اہلی کے واضع امکانات ھیں۔ موجودہ اور ماضی قریب کے تمام تر سیاسی حالات کے تناظر میں غیر جانبدارانہ تجزیہ کرتے ھوئے میں اس بات پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتا ھوں کہ آج صحابہ کا دور تو ھے نہیں سب سیاستدانوں میں خامیاں اور کمزوریاں موجود ھیں سیاست کے حمام میں سب ہی ننگے ھیں۔ عمران خان کی صلاحیتوں سے قوم وملک کو کوئی فائیدہ حاصل نہیں ھوسکا الٹا نقصان ھوا۔ اب عمران خان اور انکی جماعت روبہ زوال ھے شائد مقامات عمل بھی ھے۔ ان سیاستدانوں نے ملک کو تباہ برباد کردیا بس ایک دوسرے پر الزام لگانے میں لگے ھوئے ھیں اور 15 کروڑ سے زائد عوام بچوں کو دو وقت کی روٹی مہیا کرنے سے قاصر ھیں۔قوم اس بدحالی پر خون کے آنسو رو رھی ھے۔ کوئی ھمدرد لیڈر ھیں۔
