ڈیجیٹل مردم شماری 2023 کشمیریوں کی شناخت اور مادری زبانوں کے اندراج کا مطالبہ مسترد

اسلام آباد(صباح نیوز)پاکستان کے ادارہ شماریات ( پی بی ایس )نے ڈیجیٹل مردم شماری میں کشمیریوں کی شناخت، اور مادری زبانوں کے اندراج کے لیے مردم شماری فارم کے خانوں میں کسی قسم کی ترمیم کا آپشن مسترد کر دیا ہے ۔

پاکستان کے ادارہ شماریات ( پی بی ایس ) کے فوکل پرسن سرور گوندل نے ایک انٹرویو میں واضح کیا ہے کہ مردم شماری فارم کے خانوں میں جو کچھ درج ہونا ہوتا ہے، اس کا فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل کرتی ہے جس میں وزیراعظم پاکستان کے تحت چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے ادارہ شماریات کا اپنا کوئی اختیار نہیں ہے۔

کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد کے اپنی شناخت کے ساتھ شمار نہ ہونے کے خدشے سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ مردم شماری کا تعلق پالیسی پلاننگ سے ہے۔ اس سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کو سامنے رکھ کر آبادی کے لیے وسائل اور سہولیات کی فراہمی کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ مردم شماری کو کسی اور چیز سے نہیں جوڑا جا سکتا۔اس لیے اصولی طور پر یہ خدشہ پیدا نہیں ہونا چاہیے۔

ادھر10 مارچ کو پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے کمشنر پونچھ ڈویژن میجر ریٹائرڈ ناصر رفیق جو مردم شماری کی انچارج بھی ہیںنے ادارہ شماریات کے نام ایک خط میں لکھا تھا کہ مردم شماری 2023 کے مجوزہ فارم میں مقامی زبانوں پہاڑی اور گوجری شامل نہ ہونے پر عوامی حلقوں میں تحفظات پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے مذکورہ زبانوں کے اندراج کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ عوامی ردعمل کے نتیجے میں مردم شماری کے عمل میں رکاوٹ پڑنے کا اندیشہ ہے۔

نیوز پورٹل اردونیوز کے مطابق حالیہ مردم شماری کے حوالے سے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں عوامی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کشمیر میں بعض سیاسی جماعتوں اور سماجی گروپس نے مردم شماری کے لیے مرتب کیے گئے ڈیجیٹل فارم پر سوالات اٹھاتے ہوئے اس میں ترمیم کا مطالبہ کیا ہے۔ ان گروپس اور تنظیموں کا بنیادی اعتراض یہ ہے کہ مردم شماری کے عمل میں ان الگ شناخت اور مادری زبانوں کے آپشن کو نظرانداز کیا گیا ہے لہذا ا یہ قابلِ قبول نہیں ہے۔

آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری لطیف اکبر اس حوالے سے ایک قرارداد بھی پیش کر چکے ہیں۔لطیف اکبر نے اپنی قرارداد میں لکھا کہ مردم شماری فارم کے سوال نمبر آٹھ کے سامنے باشندہ ریاست جموں کشمیر جبکہ مادری زبان کے سوال نمبرسات کے سامنے پہاڑی اور گوجری کا آپشن بھی شامل کیا جائے۔شناخت کا آپشن نہیں رکھا گیا ۔ آزاد کشمیر میں پیپلز رائٹس فورم کے عنوان سے ایک اتحاد بھی قائم ہے ۔

پیپلز رائٹس فورم کے کارکنوں نے اپنے صدر زاہد رفیق کی قیادت میںدئگر مطالبات کے ساتھ ساتھ مردم شماری میں کشمیریوں کی شاخت، پہاڑی اور گوجری زبان کا آپشن شامل کرنے کے حق میں راولاکوٹ آزاد کشمیر سے پیدل پارلیمنٹ ہاوس اسلام آباد تک احتجاجی مارچ کیا۔ فورم کے بنیادی مطالبات میں مردم شماری کے عمل میں تبدیلی بھی شامل ہے۔ فورم کا مطالبہ ہے کہ آزاد جموں وکشمیر میں متنازعہ مردم شماری کا عمل روک کر آزاد کشمیر حکومت کی نگرانی میں مردم شماری کرائی جائے اس سلسلے میں21 مارچ کو پونچھ ڈویژن میں مکمل ہڑتال کا اعلان بھی کیا گیا ہے ۔

پیپلز رائٹس فورم کے سربراہ زاہد رفیق نے بتایا کہ اس مردم شماری میں پاکستان کے سب صوبوں کے نام الگ سے دیے گئے ہیں لیکن آزادکشمیر کا نام نہیں دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ جو لوگ تعلیم، روزگار یا کسی بھی وجہ سے چھ ماہ سے کشمیر سے باہر ہیں۔ ان کو کشمیر کی آبادی کے تحت شامل نہیں کیا گیا جس کے نتیجے میں 15 سے 20 لاکھ لوگ اس گنتی سے نکل جائیں گے۔دوسرا یہ کہ ہماری مقامی زبانوں پہاڑی، گوجری وغیرہ کا آپشن بھی نہیں رکھا گیا۔پیپلز رائٹس فورم کے صدر زاہد رفیق نے وفد کے ہمراہ وفاقی وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ سے بھی ملاقات کی اور اپنے مطالبات سے انہیں آگاہ کیا۔