آزاد کشمیر کرہ ارض کا خوبصورت ترین خطہ جو اپنے بلند و بانگ پر کشش پہاڑوں اور سر سبز و شاداب آسمان کی بلندیوں کو چھو لینے والے لہلاتے ہوئے درختوں اور برف کی لپیٹ میں رہنے کی وجہ سے ایک منفرد مقام رکھتا ہے محررین اسے دنیا میں جنت کا عکس قرار دیتے ہیں
لیکن بدقسمتی سے تین سو سال کی تاریخ رکھنے والا یہ خطہ قانون کی بالادستی اور انتظامی امور سے نابلد ہے
اس بات سے انکار نہیں کہ خطہ کشمیر ترقی یافتہ سٹیٹس کی دوڑ سے ہی کوسوں دور ہے لیکن افسوس اس بات پر ہو رہا ہے اتنی قدیم تاریخ رکھنے والے اس خطے کے حاکم ہر دور میں اپنے سے پہلے والوں کو مورد الزام ٹھہراتے رہے لیکن اصلاح کا جذبہ کسی میں بھی نہیں
کشمیر کی سنگلاخ پہاڑیوں میں بل کھاتی ہوئی خطرناک سڑکوں پر سیفٹی کے انتظامات سے قاصر سرکاریں اتنا بھی نہیں کر سکتی کہ آزاد کشمیر میں چلنے والی ٹرانسپورٹ کا معیار بہتر کر سکیں
پچاس سال پرانی گاڑیوں پر مزدوری کرنے والے ڈرائیور حضرات اپنے ساتھ بٹھائی چھ سواریوں ہی نہیں بلکہ اپنی جان بھی ہتھیلی پر لے کر گھوم رہے ہوتے ہیں اگر کہیں ٹریفک پولیس کا ناکہ لگا ہو گا تو وہ پچاس سال پرانی گاڑی کے ٹائر، انجن، گیر اور بریک کے سالم ہونے کا سرٹیفیکیٹ مٹھی میں فولڈ کئے گئے پچاس روپے کے نوٹ کی وصولی پر جاری کر لیتے ہیں اور وہی گاڑی کچھ مسافت پر اپنے سواروں سمیت کسی کھائی میں گرنے کی خبر بنتی ہے
افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارے کشمیر میں ایسی گاڑیاں چل رہی ہیں جو تین تین نسلیں چلا چکی ہیں جو گاڑی خطہ کشمیر میں داخل ہو جائے وہ صرف اس صورت میں سکریپ کا حصہ بنے گی یا تو کسی کھائی سے گرے گی یا ڈرائیور کی عدم دستیابی کی وجہ سے کھڑی زنگ آلود ہو کر اپنے سپیرپارٹس سے ہاتھ دھو بیٹھے گی لیکن افسوس کہ آج تک ایسا کوئی محکمہ فعال نہ ہو سکا جو گاڑیوں کی انسپیکشن کے اسے کینسل کر سکے
ہر گاڑی کے سالانہ ٹوکن تو ضرور لئے جاتے ہیں لیکن اس کے سالانہ ٹوکن صرف لفافے میں ڈالی گئی اماونٹ کے ذریعے کلئیر ہو جاتے ہیں لیکن لفافوں کے ذریعے آنی والی رقم سے ایک شعبہ نہیں بن سکتا کہ جب سال بعد ٹوکن وصول کئے جائیں تو گاڑی کا مکمل معائنہ ہو کہ آیا یہ قابل استعمال ہے یا نہیں
ہماری ہائی کمان ہر سال نیا ماڈل لانچ ہونے کے انتظار میں ہوتی ہے جس میں سڑک کی خستہ حالی کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے
ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں لگژری گاڑیوں پر سفر کرنے والی ہائی کمان کی نظر میں اپنے گرد و نواح نظر آنے والی پچاس سال پرانی گاڑیوں اور لوگوں کی حیثیت زمین سے پر رینگنے والے کیڑوں سے زیادہ نہیں ہوتی لیکن اللہ پاک کی طرف سے اپنی تمام مخلوق پر قطح رحمی کا حکم کہیں بھی نہیں ملتا ہے
کشمیر کا ہر باسی حاکم بالا اور روڈ اور ٹرانسپورٹ اتھارٹی سے اتنی یہی استدعا کرتا ہے کہ خدارا اگر ہماری سڑکوں کی خستہ حالی ختم نہیں کر سکتے تو ہر سال ٹوکن کلئیر کرنے کے لئے گاڑیوں کی انسپیکشن کو ضروری قرار دیا جائے کسی بھی گاڑی کا مالک جب ٹوکن کلئیر کرنے جائے تو اس گاڑی کا مکمل معائنہ کرنے کے بعد ٹوکن کلئیر کئے جائیں اور جو ناقابل استعمال ہیں ان کو کینسل کر دیا جائے تاکہ آئے روز حادثات سے چھٹکارہ پایا جا سکے