بائیں بازو کے مغالطے !!!!صابر علی حیدر

پاکستان کے بائیں بازو کے نام لیوا لا تعداد گروپ ٬ پارٹیاں اور اتحاد پچھلی کئی دہائیوں سے ملکی اور بین الاقوامی صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے پسے ہوئے طبقات کے عمومی مفادات کو بھول جاتے رہے ہیں ٬
اس کی جگہ شخصیت پرستی، قوم پرستی اور کسی حد تک بنیاد پرستی کے باعث ان کے ذاتی مفادات ان کے تجزیہ میں در آتے ہیں ۔اس کے باعث بایاں بازو ایک ایسے شجر کا روپ دھار چکا ہے جس کی جڑیں عوام کی بجائے ان کے ڈرائنگ رومز میں کھل رہی ہیں ۔اس کا تجزیہ اور اس کی مزمت ماؤ نے اپنے 7 ستمبر 1937 کے مضمون ’’آزاد خیالی کا مقابلہ کرو‘‘ میں تفصیل سے بیان کیا ہے ۔۔ عملی جدوجہد کے ذریعے بائیں بازو میں اپنی شناخت بنانے والوں کو نہ صرف سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے بلکہ مالی استحصال کے ذریعے انہیں کنٹرول کرنے کی کامیاب و ناکام کوششیں بھی کی جاتی رہی ہیں اور انہیں یہ مغالطہ بھی ہے کہ وہ انقلاب کی بہت بڑی خدمت کر رہے ہیں۔

حقائق کو انسان مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر تاریخ ان حقائق کو سات پردوں میں بھی چھپا لیتی ہے اور وقت آنے پر انہیں روز روشن کی طرح عیاں کر دیتی ہے ۔بائیں بازو میں شخصیت پرست طبقہ جب اپنے اپنے پرچم کے سامنے اپنا چہرہ کرتے ہیں تو اسے کٹڑیاں، گلی، محلے اور اُن میں کیڑوں کی طرح رینگتے ہوئے انسان نظر نہیں آتے بلکہ ان کو اپنے اپنے پارٹی پرچم میں اپنا ہی چہرہ اقتدار کی روشنی سے منور نظر آتا ہے ۔۔
قوم پرست جتنی مرضی تربیت حاصل کر لیں، جتنی مرضی کتابیں پڑھ ڈالیں ان کی سوچ اپنے علاقے اپنی قوم اور اپنی نسل میں مقید ہی دکھائی دیتی ہے۔ اسی طرح بائیں بازو کے وہ معلق افراد جو مزہب کی تفریق کے خلاف بات کرنے سے بھی گھبراتے ہیں وہ سمجھ نہیں پاتے کہ ان کی جدوجہد دین کے لئے ہے یا دنیا کے لئے۔۔۔۔ !!

سماج میں پری ورتن کا پہلا پڑاؤ اقتدار میں پری ورتن ہے، یعنی اقتدار کی ایک طبقے سے دوسرے طبقے میں منتقلی نہ کہ ایک ہی طبقے کے چہروں میں تبدیلی۔ دوسرا پڑاو معاشی تبدیلی ہے جبکہ تیسرا اور آخری پائدان سماج میں ایک عوامی جمہوری انقلاب ہے۔ مگر جب یہ تمام انگلیاں مخالف سمت میں بڑھ رہی ہوں تو یہ سوکھی ہوئی شاخیں کاٹی اور آگ میں جلائی جاتی ہیں۔

مگر ستم یہ ہے کہ ارتقاء کا پہیہ سست روی کا شکار ہو جاتا ہے اور پاکستان میں ایسا ہی ہوا۔ ملکی اور قومی مسائل کا طبقاتی ادراک ان بائیں بازو کے شخصیت پرستوں، قوم پرستوں، بنیاد پرستوں، اور کارکنان کا مالی استحصال کرنے والوں کی موجودگی میں ممکن نہیں!!! بائیں بازو کے دانشور جب تک اس نظریاتی مغالطے سے باہر نہ نکلیں گے، انقلاب کا خواب کبھی شرمندہء تعبیر نہ ہو گا۔