آج کے اس استحصالی نظام نے تمام انسانیت خواہ وہ مرد ھوں یا خواتین کی زندگیوں کو بری طرح پامال کر رکھا ھے اج علاقائی، قومی، نسلی، لسانی اور صنفی تضاد سے پرے انسانیت کو اپنی بقاء کی جنگ لڑنا لازمی ھو چکی ھے مگر اس سماج میں جہاں بنیاد پرستی اپنے عروج پر ھے نے یہاں عورت کی زندگی جو پہلے ھی اس نظام نے کچلی ھے اسے اور بھی شدت سے متاثر کیا ھے ایک طرف عورت کو گھریلو مزدور بنایا ھے اور وہ بھی ایسا مزدور کے جسکی کوئی اجرت نہیں ھے وھی اس بنیاد پرستی نے عورت جو چار دیواری تک محدود کرنے کی کوشش کی ھے دوسری طرف لبرل اشرافیہ کا کردار بھی کسی بروکر سے کم نہیں ھے جس نے عورت کو بازار کی جنس بنا کر ھمیشہ اپنے پروڈکٹ سیل کیے ھیں انکے صابن شیمپو سے لے کر ٹوتھ پیسٹ تک عورت کے جسم کی نمائش کے بغیر نہیں بکتے انہوں نے عورت کو مارکیٹنگ کے لیے مختلف مسائل میں ڈال رکھا ھے .. 8مارچ جسکو خواتین کا عالمی دن کہتے ھیں اسکی شروعات جب ھوئی تب خواتین کے مسائل اج کی خواتین سے مختلف تھے تب خواتین کو اپنی شناخت کے لیے لڑنا پڑا تھا یہ وہ دن ھے جسکا اغاز انٹرنیشنل ورکنگ وویمن موومنٹ سے ھوا جو باقاعدہ 1908 کو نیو یارک میں اپنے بنیادی سماجی معاشی اور سیاسی حقوق کے لیے کیا گیا جس میں ووٹ دینے کا حق تنخواہوں میں برابری وغیرہ کے مطالبات شامل تھے جسمیں لگ بگ 1500خواتین نے شرکت کی تھی جو اپنے بنیادی حقوق کے لیے سڑکوں پر نکل ائی تھی 1910میں پہلی بار امریکہ میں سوشلسٹوں کی ایک کانفرنس میں خواتین کا عالمی دن بنانے کی تجویز پیش کی گئی جسکو متفقہ طور پر منظور کیا گیا اور 1911 میں پہلی بار 8مارچ کو یہ دن بنایا گیا .. 1917کے انقلاب کا ٹریگر اپ کا سہرا بھی انہی خواتین کے سر جاتا ھے جنہوں نے زار شاہی کے خلاف بنیادی حقوق کے گرد مظاہرہ کیا.
بالشویک انقلاب کے بعد یہ دن باقائدہ مختلف ممالک میں ھر سال منایا جانے لگا اس دوران فیمنسٹ تحریک بھی چل رھی تھی انہی تحریکوں کے چلتے پہلی بار بالشویک انقلاب کے بعد خواتین کو ووٹ کا حق دیا گیا اور پہلی بار اقوام متحدہ میں 1975میں انٹرنیشنل وویمنز ڈے منایا گیا اسطرح 1977میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے زریعے 8 مارچ کو خواتین کا دن بنانے کی منظوری دی اور اس طرح وہاں کی خواتین کی محنت اور جہدوجہد رنگ لائی جو انکے بنیادی سماجی حقوق کی جہدوجہد تھی.. اگر ھم اج کے دور کی بات کریں تو اج خواتین میں دو طبقات ھیں ایک طرف مڈل کلاس طبقے کی عورتیں ھیں جو ھزاروں لاکھوں روپے شاپنگ پر خرچتی ھیں اور دوسری طرف محنت کش خواتین جو دوہرے تہرے استحصال کا شکار ھیں کے جو گھر کے کام کاج اور بچوں کی پرورش کے ساتھ ساتھ دو وقت کی روٹی کے لیے کھیتوں میں کام کرتی ھیں اور مردوں سے کم اجرت کے ساتھ ساتھ محتلف معتصبانہ رویوں کو بھی برداشت کرتی ھیں ہراسمنٹ کا شکار ھوتی رہتی ھیں تو انکے لیے حالات ان اپر کلاس کی عورتوں سے آج بالکل مختلف ھیں کے جہنوں نے کام کرنے کے لیے نوکرانیاں رکھی ھوتی ھیں اور پھر اس طبقے کی عورتیں میرا جسم میری مرضی کے سلوگن کے ساتھ خواتین کے عالمی دن پر ھمیں نظر اتی ھیں جبکہ محنت کش خواتین اور محنت کش مرد اج ایک جیسے جبر اور استحصال سے دوچار ھیں اور انکی جہدوجہد کسی خاص جنس کے لیے نہیں رھی کیوں کے اج محنت کش مردوں کو اور عورتوں کو اپنی زندگی جینے کے لیے گھر روٹی کپڑے جیسے بنیادی مسائل کا سامنا ھے اور یہی وجوہات ھیں کے جب ایک مرد اٹے کے لیے دن بھر دھکے کھا کر اور اپنی محنت بیچ کر ائیگا تو وہ صرف ساتھ میں روٹی لا سکے گا اچھا رویہ نہیں اور پھر اسکا وہ جو غم و غصہ اس نظام کے خلاف ھے وہ اپنے گھر کی عورتوں اور اپنے بچوں پر اترے گا اج جہاں عورتوں پر ظلم و جبر کی انتہا ھے وھی ھمیں یہاں کے مرد بھی ائے روز بے روزگاری کی وجہ سے خود کشیاں کرتے نظر اتے ھیں حالیہ واقعہ ھی دیکھ سکتے ھیں ھم جس میں ایک کشتی الٹنے پر کئی گھروں کے نوجوان مر گئے جو روزگار کی تلاش میں نکلے تھے. اسی طرح ہمارے معاشرے میں آبادی کا یہ نصف کہیں نظر نہیں آ رہا زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم یہ نصف آبادی چاہے کتنی ہی قابل کیوں نہ ہو مگر وہ معاشرے کی ترقی میں حصہ نہیں لے سکتی اور اگر کوئی عورت یہ ساری سماجی پابندیاں توڑتے ہوئے گھر سے باہر قدم رکھتی ہے تو مسائل کا ایک انبار اسکے سامنے کھڑا ہوتا ہے. اس نے گھر سے باہر کیسے جانا ہے؟ کس کے ساتھ جانا ہے؟ اکیلے جانا ہے تو محفوظ سفر کیسے کرنا ہے؟ کہیں اگر کوئی جاب کر رہی ہے تو وہاں پر ماحول کیسا ہو گا؟
اور ایسے بے شمار عوامل ہیں جو اسے چار دیواری میں قید ہونے پر مجبور کر دیتے ہیں اس وقت جب سرمایہ داری زوال پریزی کا شکار ہے تو اکیلے کسی ایک شخص کی کمائی سے گھر چلانا مشکل ہو گیا ہے وہیں اتنی بڑی پیداواری قوت کا استعمال نہ ہونا صرف مائیکرو لیول پر نہیں بلکے میکرو لیول پر بھی کم شرح پیداوار کی ایک بڑی وجہ ہے. عورت کو شامل کیے بغیر معاشی ترقی کا خواب ایک سراب ہے مگر معاشی ترقی میں عورت کی شمولیت کیسے ممکن ہے یہ زیادہ اہم اور قابل توجہ سوال ہے.
اج خواتین اور مردوں کی لڑائی ایک ھی لڑائی ھے اور وہ لڑائی اس نظام کے خلاف ھے جس نے انکو یہ ذلتیں یہ رسوائیاں دی ھیں اور ابادی کا 50 فیصد چھوڑ کر اپ کوئی بھی جنگ نہیں جیت سکتے اس لیے خواتین کی شمولیت کے بغیر یہ لڑائی ممکن نہیں ھے اس لیے ھمیں اس خطے کے مردوں کے شانہ بشانہ یہ لڑائی لڑتے ھوئے یہاں سے اس غلیظ نظام کو اکھاڑ پھینکنا ھو گا جس نے ھمیں صرف زلتیں دی ھیں جس نے ھمیں قومی لسانی اور صنفی بنیادوں پر تقسیم کیا ھے اور ایک ایسا نظام یہاں قائم کرنا ھے کے جس میں ھم چین کی سانس لے سکیں اور اپنی نسلوں کو ایک بہتر زندگی دے سکیں اور اس نظام کے انے تک ھماری جہدوجہد جاری رھے گی .